سفر کی تیاری کرتے ہوئے زاہد علی خان نے ایک پولورائیڈ کیمرہ بھی ساتھ رکھ لیا لیکن انھوں معلوم ہی نہ تھا کہ وہ ان کے لیے وہ شاہ کلید ثابت ہوگا جس سے نہ صرف صدارتی محل کے بند دروازے ان کے لیے کھلتے جائیں گے بلکہ جنگجوؤں سے ان کی دوستی ہوگی اور کابل کے عام رہائشیوں کے گھروں میں وہ مہمان بن کر رہ پائیں گے۔