سیاسی ڈائری، سیاست میں گرما گرمی، کشمیر کے انتخابات نے مہمیز دی اسلام آباد (محمد صالح ظافر/خصوصی تجزیہ نگار) قومی سیاست میں گرما گرمی نے بجٹ منظور ہونے کے بعد اپنے رنگ دکھانا شروع کررکھے ہیں انہیں آزاد کشمیر کی مجلس قانون ساز کے انتخابات نے مہمیز دی ہے ان سے یہ بھی تخمینہ لگایا جاسکے گا کہ پاکستان میں ہونے والے انتخابات منعقد کرانے میں کس درجے کی شفافیت ہوگی اور ان کی منصفانہ نوعیت کا سراغ بھی مل سکے گا آزاد کشمیر کے انتخابات پاکستان میں ہونے والی اس انتخابی مشن کا پیشگی عکس ثابت ہونگے جہاں تک رائے عامہ کے رجحانات کا تعلق ہے ان کا اندازہ نہ صرف پاکستان مسلم لیگ (ن) کے زیراہتمام مریم نواز شریف، تحریک انصاف کے انتظام و انصرام کے تحت عمران خان اور پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو زرداری اور آصفہ بھٹو زرداری کے عام جلسوں میں موجود حاضری سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے پاکستان میں ما قبل کے ضمنی انتخابات میں گزشتہ مہینوں کے دوران جس طرح حکمران تحریک انصاف کے امیدوار ہر نشست پر بری طرح شکست سے دوچار ہوئے ہیں ان سے یہ تصور بھی زمین بوس ہوگیا کہ ضمنی انتخابات ہمیشہ حکمران پارٹی جیت لیتی ہے کئی معرکوں میں حکومتی امیدوار عام انتخابات میں اختیار کردہ ’’چابکدستی‘‘ کی بدولت لاکھ ڈیڑھ لاکھ کے فرق سے جیتے تھے ضمنی انتخابات میں اسکےعہدیدار بمشکل اپنی ضمانت بچانے میں کامیاب ہوسکے ان ضمنی انتخابات نے حکمران پارٹی کی کارکردگی کا پول بھی کھول کر رکھ دیا آزاد کشمیر کے انتخابات کے بارے میں آغاز کار سے تاثر رہا ہے کہ وہاں وفاق میں حکمران پارٹی کے امیدوار ’’کامیاب‘‘ ہوتے ہیں حزب اختلاف کی سب سے بڑی پارٹی پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اس روایت کو توڑ دینے کا عزم کررکھا ہے اور یہ بھی واضح کردیا ہے کہ دھاندلی روا رکھی گئی تو پورا آزاد کشمیر اسلام آباد کے ڈی چوک میں احتجاجاً دھرنا دیئے بیٹھا ہوگا۔ اس انتخابی مہم میں وفاقی حکومت اور اسکے مہم چلانے والوں کا طرز عمل کم از کم آزاد کشمیر کے عوام نے سختی کے ساتھ مسترد کردیا ہے جس زبان اور لب و لہجے کا سہار وزیراعظم عمران خان اور انکے وزرأ نے لیا ہے وہ انکے شائستگی سے بیگانہ ہونے کی گواہی دیتا ہے بعض حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ آزاد کشمیر کے انتخابات کے سرکاری نتائج برآمد ہونگے تو پوری حزب اختلاف اس پر احتجاج کرے گی اور شور مچائے گی اسکے جواب میں حکومت کی طرف سے انہیں انتخابی اصلاحات کی اہمیت یاد دلانے کی کوشش کی جائے گی اور موقف اختیار کیا جائے گا کہ حزب اختلاف ان اصلاحات کے لئے رضامند نہ ہوئی تو پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات کے بارے میں بھی اس کا یہی رونا دھونا برقرار رہے گا۔ حزب اختلاف حکومت کی تجویز کردہ اصلاحات کو انتخابی فریب کاری کا نام دیتی ہے اسکے اکابرین کا موقف ہے کہ حکومت انتخابی اصلاحات کے نام پر ایسا مشینی نظام متعارف کرانا چاہتی ہے جسکے ذریعے وہ انتخابی دھاندگی کے ذریعے اپنی کامیابی کو یقینی بنائے گی اور پھر اس دھاندلی کا کوئی ثبوت بھی نہیں ملے گا وہ جس نظام کو پاکستان کے انتخابی عمل کا حصہ بنانا چاہتی ہے دنیا کے متعدد ممالک میں اس کا تجربہ کرکے اسے ترک کردیا گیا ہے ۔ حکمران پارٹی نے ہفتے عشرے کے بعد سندھ میں بڑے پیمانے پر عام جلسوں کا نظام ترتیب دیدیا ہے جن سے وزیراعظم خطاب کرینگے ۔ ملک بھر سے سے مزید