پاکستان میں انسداد بدعنوانی مہم کیوں ناکام ہوجاتی ہیں؟ : vimarsana.com

پاکستان میں انسداد بدعنوانی مہم کیوں ناکام ہوجاتی ہیں؟


پاکستان میں انسداد بدعنوانی مہم کیوں ناکام ہوجاتی ہیں؟
کراچی (نیوز ڈیسک) پاکستان میں بدعنوانی کوئی غیر معمولی شے نہیں ہے۔ اس کی جڑیں نوآبادیاتی دور کی ہیں جب انگریزوں نے اپنے وفاداروں کو زمینیں اور القابات سے نوازا ، جس سے اقرباء پروری اور بدعنوانی پروان چڑھی۔ دنیا کے اس حصے میں دو اہم بحرانوں نے بدعنوانی کی ابتدا میں بنیادی کردار ادا کیاجن میں دوسری جنگ عظیم کے دوران اور اس کے بعد دفاع سے متعلق خریداریاں اور برصغیر پاک و ہند کی تقسیم کے بعد خالی ہونے والی املاک کی الاٹمنٹ شامل ہیں۔ 1970 کی دہائی کو قومیانے والی پالیسی نے بدعنوانی کے نئے مواقع پیدا کئے اور بدعنوان سرکاری افسران کی ایک نئی نسل کو جنم دیا جو 1980 کی دہائی تک برقرار رہی۔ اگرچہ سرکاری بدعنوانی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھی جاتی ہے، بین الاقوامی عطیہ دہندگان کی جانب سے متعارف کرائی گئی "گڈ گورننس" کے نو لبرل خیال کے نتیجے میں اس نے ترقی پذیر ممالک میں بڑھتی ہوئی توجہ حاصل کی۔ اس نے اس مفروضے پر کام کیا کہ ترقی پذیر ممالک میں حکومتیں غیر موثر ہیں اور اس کی سب سے بنیادی وجہ سرکاری شعبے میں بڑھتی ہوئی بدعنوانی تھی۔ لہٰذا اس وقت کے پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف نے 1999 میں سخت گیر قومی احتساب بیورو (نیب) متعارف کروایا تاکہ بین الاقوامی ڈونرز کے گڈ گورننس کے نسخوں پر عمل کیا جاسکے۔ اگرچہ جنرل مشرف نے بدعنوانی پر قابو پانے کے لئے نیب کو متعارف کرایا ، پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم عمران خان نے انسداد بدعنوانی کے خلاف جری منصوبے کا آغاز کرتے ہوئے اسے ایک قدم اور آگے بڑھایا (جو 2018 میں ان کی انتخابی مہم کا مرکزی نعرہ تھا)۔ دونوں بری طرح ناکام ہوئے ہیں اور اس کے بجائے بدعنوانی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی ہائبرڈ (دوغلی) حکمرانی کے دوران بدعنوانی کے متعدد اہم اسکینڈلز کی اطلاع ملی ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق بدعنوانی پر قابو پانے کے بجائے پی ٹی آئی کی حکومت نے پچھلے ڈھائی سالوں میں اس میں نمایاں اضافہ کیا۔ جب ریاستی محکموں میں پھیلی ہوئی بدعنوانی پر قابو پانے کی بات آتی ہے تو عمران خان کے اچھے ارادے کیوں ناکام ہو گئے؟ یہ ناکامی انسداد بدعنوانی کی حکمت عملی وضع کرنے کے لئے درکار نوعیت، خصوصیات ، نمونوں اور تنظیمی ڈھانچے کو غلط سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ 1950 کی دہائی سے پاکستانی سیاستدانوں پر بدعنوانی کا الزام لگایا گیا ہے۔ ۔ مشہور جرمن ماہر معاشیات میکس ویبر کے تجویز کردہ ایک مغربی تصور کے مطابق انہیں سماجی ، سیاسی اور معاشی ڈھانچے کو نظرانداز کرتے ہوئے ’ناپسندیدہ افراد‘ کے طور پر چنا جاتا ہے اور بنیادی طور پر "ذاتی مفادات کے لئے عوامی اختیارات کے غلط استعمال" کے ذمہ دار ہیں۔ لیکن بدعنوانی کے اس تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کم سے کم دو شرطیں درکار ہیں۔ سب سے پہلے ریاست اور معاشرے کے درمیان سخت فرق کرنا پڑے گا ، اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاستی محکموں کو مفادات کے گروہوں یا رشتہ داریوں سے الگ کیا جائے۔ دوم یہ کہ خونی رشتے والے معاشرے وہ ہیں جہاں افراد کی حیثیت کے بجائے افراد دوسروں کے رشتے میں موجود ہیں لیکن یہ تصور فرض کرتا ہے کہ افراد ان کے رشتے داری سے آزاد ہیں۔ اس وجہ سے پاکستان جیسے ممالک میں جو خونی رشے والے معاشرے ہیں لوگ اپنے انتہائی اہم فیصلوں کے لئے اپنے کنبہ کے ارکان اور بعض معاملات میں حتیٰ کہ ان کے بڑھے ہوئے خاندان کے افراد یا پورے قبیلے سے منظوری لیتے ہیں۔لیکن جب ان تعلقات کا ترجمہ سیاست میں کیا جاتا ہے ، تو افراد اسی عمل سے گزرتے ہیں ، معاشرے کی بڑی اکائی یعنی قومی ریاست سے وابستہ ہونے کے بجائے قرابتی تعلقات کو ووٹ دیتے ہیں۔وہ سیاسی منشور کو ووٹ نہیں دیتے بلکہ سیاسی امیدواروں سے بطور خاندان یا برادری کے ان کو جو کچھ ملتا ہے اسے ووٹ دیتے ہیں۔ یہ پاکستان جیسے ممالک کے لئے سچ ہے ، جہاں کئی دہائیوں کی براہ راست اسٹیبلشمنٹ حکمرانی نے غیر جماعتی انتخابات کا استحقاق حاصل کیا ہے اور اب بھی سیاست میں انکی مداخلت جاری ہے۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں رشتے داری کے تعلقات بدلے جانے ہیں،ایسی ریاست جس کی سرپرستی کلائنٹ کی سیاست سے ہو، اس نے بدعنوانی پر قابو پانے کے لئے ریاست کو جوابدہ بنانے کیلئے لوگوں کو غیر مجاز کرتے ہوئے ریاست اور معاشرے سے واضح طور پر علیحدگی کی ممانعت کی ہے۔ مختصراً یہ کہ جب تک ریاستی اداروں کے تنگ نظری پر مبنی مفادات، خاص طور پر فوجی بیوروکریٹس اور قرابت پر مبنی انتخابی امیدوار، سے ریاست کی تشکیل کو الگ نہیں رکھا جاتا، بدعنوانی پر قابو پانے کا کام نہیں چلے گا۔ پاکستان میں بدعنوانی ریاست کی تشکیل کے نامکمل عمل کا اثر ہے جو ریاست اور معاشرے کے درمیان سخت سرحد قائم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ سیاست میں غیر سیاسی اداروں کی عدم مداخلت کو یقینی بنانا بدعنوانی کو ختم کرنے کا واحد طریقہ ہے۔
اہم خبریں سے مزید

Related Keywords

Germany , India , Pakistan , Karachi , Sindh , German , I Imran Khan , Max Weber , Imran Khan , , World War , President General Pervez Musharraf , General Musharraf , ஜெர்மனி , இந்தியா , பாக்கிஸ்தான் , கராச்சி , சிந்த் , ஜெர்மன் , அதிகபட்சம் வெபர் , இம்ரான் காந் , உலகம் போர் , ப்ரெஸிடெஂட் ஜநரல் பெறுவேஜ் முஷாரஃப் , ஜநரல் முஷாரஃப் ,

© 2024 Vimarsana