افغانستان کے مشیر قومی سلامتی کا دورۂ ماسکو، روس امن عمل میں کیا کردار ادا کر سکتا ہے؟
جولائی 01, 2021
update
share
واشنگٹن ڈی سی —
افغانستان کی قومی سلامتی کے مشیر روس پہنچے ہیں جہاں وہ کابل اور ماسکو کے درمیان ممکنہ فوجی تعاون پر بات چیت کریں گے۔
افغانستان کے نیشنل سیکیورٹی کے مشیر کے دفتر سے جاری کئے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ روس میں دو روزہ قیام کے دوران حمداللہ محب روس کے سیکیورٹی کے عہدیداروں کے ساتھ باہمی مفاد کے امور پر تبادلۂ خیال کریں گے اور مشترکہ مفادات کے شعبوں میں تعاون کی راہیں تلاش کریں گے۔
افغانستان کی موجودہ حکومت کے ساتھ روس کس طرح کا تعاون کر سکتا ہے جو ملک میں امن و امان کے قیام میں مدد گار ہو؟ کیا روس کابل کو فوجی ساز و سامان دینے یا فوجی تربیت کی حامی بھی بھر سکتا ہے؟
گزشتہ ماہ امریکہ کے صدر جو بائیڈن کی اپنے روسی ہم منصب ولادی میر پیوٹن کے ساتھ جینیوا میں تفصیلی ملاقات ہوئی تھی جس میں صدر بائیڈن کے مطابق افغانستان کی صورتِ حال پر بھی تبادلۂ خیال ہوا تھا۔
جینیوا سوئٹزرلینڈ میں امریکہ کے صدر جو بائیڈن کی جون میں اپنے روسی ہم منصب ولادی میر پوٹن کے ساتھ ملاقا کا ایک منظر (اے پی)
صدر بائیڈن نے پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ انہوں نے صدر پوٹن سے کہا ہے کہ افغانستان میں امن کےعمل میں روس کو بھی کردار ادا کرنا چاہیے، جس پر صدر پوٹن نے کہا کہ روس سے جس طرح کی مدد ہو سکتی ہے ، وہ فراہم کرے گا۔
روس افغانستان کی موجودہ صورتحال میں کیا کر سکتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں ’پالییٹیکٹ‘کے چیف تجزیہ کار عارف انصار نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہاکہ روس کا افغانستان کے اندر کوئی بھی قدم عالمی سیاست کے رخ کو دیکھتے ہوئے ہو گا۔
’’ امریکہ اور روس کے تعلقات کی کئی جہتیں ہیں۔ چین اور روس کی اپنی شراکت داری ہے، برکس جیسے فورم ہیں۔ اس ملٹی پولر ورلڈ میں روس افغانستان میں کسی کردار سے پہلے عالمی سیاست اور اپنے مفادات کو پیش نظر رکھے گا‘‘
ڈاکٹر سحر خان، واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک کیٹو انسٹی ٹیوٹ میں سینئر ریسرچ فیلو ہیں۔ وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں کہتی ہیں کہ روس کو سرد جنگ کا تجربہ ہے۔ اور ماسکو جانتا ہے کہ افغانستان میں جب معاملات سنبھل نہیں رہے ہوتے تو تبدیلی باہر سے آتی ہے۔
’’ افغانستان کے مفاد میں ہے کہ روس کے ساتھ تعلقات قائم رکھے۔ اور امریکہ بھی چاہتا ہے، جیسا کہ صدر بائیڈن نے کہا، روس افغانستان کے امن عمل میں اپنا کردار ادا کرے‘‘
روس نے اس سال مارچ اور اس کے بعد یکے بعد دیگرے تین بین الاقوامی کانفرنسوں کی میزبانی کی تھی جن کا مقصد کابل حکومت اور طالبان کو ایسے حالات میں قریب لانا تھا جب دوحہ میں امریکہ کی معاونت سےجاری مذاکرات تعطل کا شکار تھے۔ روس کے وزیرخارجہ سرگئی لاوروف نے اٹھارہ مارچ کی کانفرنس سے قبل بہتری کی توقعات کا اظہار کیا تھا۔
’’ہمھیں امید ہے کہ یہ مذاکرات بین الافغان مذاکرات کی پیش رفت میں مدد دیں گے‘‘
تجزیہ کار عارف انصار کہتے ہیں کہ ایسے میں جب کابل میں حکومت کی تشکیل پر متضاد آرا پائی جاتی ہیں، افغانستان کے مشیر برائے قومی سلامتی کا دورہ یہ معلوم کرنے کے لیے ہو سکتا ہے کہ صدر اشرف غنی کے موقف کے لیے روس میں کتنی حمایت پائی جاتی ہے۔
’’ صدر غنی چاہتے ہیں کہ ملک میں نئے انتخابات ہوں اور جو حکومت بنے اسی کو نمائندہ حکومت خیال کیا جائے۔ جبکہ امریکہ ’’ بلنکن پروپوزل‘‘ کے مطابق چاہتا ہے کہ کابل میں موجودہ حکومت ختم کر کے ایک ایسی عبوری حکومت بنائی جائے جس میں طالبان کو بھی شریک رکھا جائے۔ اس لیے ہو سکتا ہے کہ مشیر برائے قومی سلامتی یہ دیکھنے کے لیے ماسکو گئے ہوں کہ وہاں صدر غنی کے موقف کی حمایت کے لیے کتنی گنجائش موجود ہے‘‘
طاہر خان، پاکستان کے سینئر صحافی ہیں اور ان کا شمار ان چند تجزیہ کاروں میں ہوتا ہے جو افغانستان کے حالات کا گہرا مطالعہ اور مشاہدہ رکھتے ہیں۔
وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں طاہرخان کہتے ہیں کہ روس نے گزشتہ برسوں میں افغانستان کے بارے میں واضح موقف اختیار کیا ہے۔
’’ خطے کے دیگر ممالک کی نسبت روس کا کردار واضح اور صاف ہے۔ وہ دیگر ممالک کی طرح سفارتی زبان استعمال نہیں کرتا۔ افغانستان کی حکومت پرکبھی کبھی تنقید کرتا ہے، اس کے ساتھ طالبان کی طرف سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے مطالبے کی بھی حمایت کرتا ہے۔‘‘