امریکا نے واضح کردیا افغانستان میں القاعدہ و دیگر پر حملوں کا اختیار ہے کراچی ( رفیق مانگٹ)کیاافغانستان میں امریکی جنگ واقعی ختم ہوگئی؟امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ کو ستمبر تک اختیار ہےکہ وہ طالبان کے خلاف افغان فورسز کا دفاع کریں ، وہ افغانستان سے باہر موجودامریکی جنگی طیاروں کو حملوں کا حکم دے کر ایسا کرسکتے ہیں ، ماضی کی جنگیں مثبت نتائج اور معاہدوں کے ساتھ ختم ہوئیں تاہم اب افغانستان میں ہتھیار ڈالے گئے نہ کوئی امن معاہدہ ہوا، نہ حتمی فتح ہوئی اور نہ فیصلہ کن شکست ہوئی، امریکی افواج 2014 سے افغانستان میں زمینی لڑائی میں مصروف نہیں ، امریکی سفارتخانے کے احاطے میں امریکی سکیورٹی کا 650 دستہ ہوگا جو امریکی سفارتکاروں کی حفاظت کرے گا، مک کینزی کو اختیار ہے کہ وہ ستمبر تک مزید 300 فوجیوں کو مشن میں مدد فراہم کرنے کیلئے رکھے، امریکی فوجیں اب افغان افواج کی تربیت یا مشاورت کے لئے موجود نہیں ہوں گی، پنٹاگون کا کہنا ہے کہ درمیانہ خطرہ موجود ہے ،دو برس میں افغان حکومت اور اس کی سکیورٹی فورسز کا خاتمہ ہوجائے گا۔ امریکا نے واضح کردیا افغانستان میں القاعدہ یا دیگر عسکریت پسندوں کے خلاف حملوں کا اختیار برقرار رکھتے ہیں ، اب امریکا کا انحصار ڈرونز پروازوں پر،اس کے لئے افغانستان کے قریبی ممالک میں بیسز کی تلاش،ابھی تک کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔ تفصیلات کےمطابق امریکا کے آخری فوجی افغانستان سے نکلنے کی تیاری کر رہے ہیں لیکن انخلا کا مطلب دہشت گردی کے خلاف جنگ کا خاتمہ نہیں۔ امریکی میڈیا رپورٹ کے مطابق امریکا کے آخری جنگی فوجی افغانستان سے انخلا کررہے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ واقعی جنگ کب ختم ہو رہی ہے؟افغانیوں کے لئے جواب واضح لیکن سنگین ہے۔ طالبان جنگ زدہ علاقوں میں فائدہ اٹھا رہے ہیں، ممکنہ امن مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔ کچھ لوگوں کو خدشہ ہے غیر ملکی افواج کے انخلا کے ساتھ ہی افغانستان خانہ جنگی کی طرف چلا جائے گا۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر عہدیدار کا کہنا تھا کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لئے افغان جنگ کایوں خاتمہ مایوس کن ہے، اگرچہ تمام فوجی اور 20 سال سے جمع شدہ جنگی سازوسامان جلد چلا جائے گا، تاہم امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ، جنرل فرینک میک کینزی کو ستمبر تک یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ طالبان کے خلاف افغان فورسز کا دفاع کریں۔ وہ افغانستان سے باہر مقیم امریکی جنگی طیاروں کو حملوں کا حکم دے کر ایسا کرسکتے ہیں۔امریکی عہدے داروں نے بتایا کہ امریکی فوج نے بگرام ایئر بیس کو 20 سال بعد چھوڑ دیا۔لیکن اس کی افغان حکومت کو منتقلی سے امریکی فوج کاملک سے آخری انخلا نہیں ہوا۔ دو عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ایئر بیس کو پوری طرح سے حوالے کردیا گیا ہے۔تکنیکی طور پر، امریکی افواج 2014 سے افغانستان میں زمینی لڑائی میں مصروف نہیں۔ لیکن انسداد دہشت گردی فورسزاس وقت سے شدت پسندوں کا تعاقب کر رہی ہیں۔افغانستان کے اندر، امریکی فوجیں اب افغان افواج کی تربیت یا مشاورت کے لئے موجود نہیں ہوں گی۔ امریکی سفارتخانے کے احاطے میں غیر معمولی طور پر امریکی سکیورٹی کا 650 دستہ ہوگا، جو امریکی سفارتکاروں کی حفاظت کرے گا اور ممکنہ طور پر کابل کے ہوائی اڈے کو محفوظ بنانے میں مدد فراہم کرے گا۔ توقع کی جا رہی ہے کہ ترکی ہوائی اڈے کی حفاظت فراہم کرنے کے اپنے موجودہ مشن کو جاری رکھے گا، لیکن مک کینزی کو اختیار ہے کہ وہ ستمبر تک مزید 300 فوجیوں کو اس مشن میں مدد فراہم کرنے کیلئے رکھے۔یہ بھی ممکن ہے کہ امریکی فوج سے کہا جائے کہ وہ خصوصی تارکین وطن ویزا حصول کے لئے افغانوں کی بڑے پیمانے پر انخلا پر مدد کریں۔ حالانکہ محکمہ خارجہ کو اس کیلئے فوجی ہوائی جہاز کی ضرورت نہیں ہوگی۔ وہائٹ ہاؤس کو تشویش ہے کہ جن افغانوں نے امریکی جنگ میں مدد کی، وہ طالبان کی انتقامی کارروائیوں کا شکار ہوجائیں گے ان کو پیچھے نہیں چھوڑا جائے گا۔ اپریل میں امریکی جنگ کے خاتمے کا فیصلہ کرتے ہوئے صدر جو بائیڈن نے پنٹاگون کو انخلا مکمل کرنے کے لئے 11ستمبر تک وقت دیا۔ کابل میں امریکی فوج کے انچارج سکاٹ ملر نے اسے پہلے ہی ختم کرلیا ، قریباً تمام فوجی سازوسامان رخصت ہوگیا،کچھ فوجی باقی رہ گئے ہیں۔ملر بھی آنے والے دنوں میں افغانستان سے رخصت ہو جائیں گے لیکن ان کی رخصتی سے امریکی جنگ کا خاتمہ ہوگا؟ ستمبر تک افغانستان میں 950 امریکی فوجی رہیں گے اور ممکنہ فضائی حملے جاری رہیں گے۔افغانستان کے برعکس، ماضی کی جنگیں مثبت نتائج اور معاہدوں کے ساتھ ختم ہوئیں۔چونکہ امریکہ کی افغانستان میں جنگ خاتمے کے قریب ہے یہاں نہ تو ہتھیار ڈالے گئے نہ کوئی امن معاہدہ ہوا، نہ حتمی فتح اور نہ فیصلہ کن شکست ۔ بائیڈن کا کہنا ہے کہ یہ کافی ہے کہ امریکی فوج نے القاعدہ کو تتربتر کردیا اور اسامہ بن لادن کوہلاک کیا۔ حال ہی میں، افغانستان میں تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ افغان فورسز اور عام شہریوں پر طالبان کے حملوں میں شدت آگئی ہے اور اس نے 100 سے زیادہ ضلعی مراکز کو اپنے کنٹرول میں کرلیا ہے۔ پنٹاگون کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ درمیانہ خطرہ موجود ہے کہ اگر جلد نہیں تو اگلے دو سالوں میں افغان حکومت اور اس کی سکیورٹی فورسز کا خاتمہ ہوجائے گا۔امریکی رہنماوں کا اصرار ہے کہ افغانستان میں امن کا واحد راستہ مذاکرات کے ریعے طے شدہ راستے پر ہی عمل کرنا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے فروری 2020 میں طالبان کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس میں کہا گیا تھا کہ امریکہ مئی 2021 تک طالبان کے ساتھ کیے گئے وعدے کے مطابق اپنی فوجیں نکال لے گا۔امریکی حکام کا کہنا ہے کہ طالبان معاہدے کی اپنی شرائط پر عمل نہیں کر رہے، یہاں تک کہ امریکہ اپنی واپسی جاری رکھے ہوئے ہے۔ افغان سیکیورٹی فورسز کی تربیت، مشورے اور مدد کے لئے نیٹو ریزولیوٹ اسپورٹ مشن کا آغاز 2015 میں ہوا تھا، اس موقع پر افغانوں نے اپنی سیکورٹی کی پوری ذمہ داری قبول کرلی، پھر بھی وہ امریکی امداد میں سالانہ اربوں ڈالر پر انحصار کرتے آرہے ہیں۔جنگ کے عروج پر، افغانستان میں نیٹو کے 50 اور شراکت دار ممالک سے ایک لاکھ تیس ہزار سے زائد فوجی موجود تھے۔ ترکی ائیرپورٹ پر سیکورٹی کی فراہمی جاری رکھنے کیلئے افغان رہنماوں کے ساتھ دو طرفہ باہمی معاہدے پر بات چیت کررہاہے،جب تک وہ معاہدہ نہیں ہوتا،ترک فوجی ریزولیوٹ اسپورٹ مشن کے تحت افغانستان میں قیام کریں گے۔امریکی فوجی انخلاکامطلب دہشت گردی کے خلاف جنگ کاخاتمہ نہیں، امریکا نے واضح کردیا کہ اگر ان کی سلامتی کو خطرہ ہوا تو وہ افغانستان میں القاعدہ یا دیگر عسکریت پسندوں کے خلاف حملوں کا اختیار برقرار رکھتے ہیں۔ اب امریکا کا انحصار بحری جہازوں اور خلیج میں ائیربیس سے ڈرونز پروازوں پر ہوگا۔ پنٹاگون متادل کے طور ڈرونز اور دیگر اثاثوں کے لئے افغانستان کے قریبی ممالک میں بیسز کی تلاش میں ہے،تاہم ابھی تک کسی سے کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔ اہم خبریں سے مزید