X
سندھ میں کوئی حکومت نہیں، لندن، دبئی، کینیڈا سے حکم چلتا ہے، باقی صوبے ترقی کررہے ہیں، چیف جسٹس
سندھ میں کوئی حکومت نہیں، لندن، دبئی، کینیڈا سے حکم چلتا ہے، چیف جسٹس
کراچی (اسٹاف رپورٹر) چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ سوائے سندھ کے پورا ملک ترقی کر رہا ہے ،ایک طویل عرصے سے آپکی حکومت ہے صوبے میں لیکن کیا ملا شہریوں کو؟، سندھ میں کوئی حکومت نہیں، یہاں لندن، دبئی اور کینیڈا سے حکم چلتا ہے، صوبے کا اصل حکمران یونس میمن،سندھ حکومت کا ایک ہی منصوبہ ہے صوبے کو بد سے بدتر بنائو، جولوگ ایک نالہ صاف نہیں کرا سکتے وہ صوبہ کیسے چلائینگے، واٹر بورڈ صارفین کو پانی کیوں نہیں دیتا، ختم کریں ایسا ادارے کو۔ سپریم کورٹ نے کڈنی ہل پارک ، کشمیر روڈ پر کے ڈی اے افسر و دیگر تعمیرات اورالہ دین واٹر پارک سے متصل شاپنگ سینٹر اور پویلین کلب کے خاتمے اور تمام تجاوزارت ختم کرنے حکم دیدیا جبکہ کنٹونمنٹ علاقوں اور ڈی ایچ اے سمیت شہر کے دیگر علاقوں میں پانی کی فراہمی سے متعلق کے فور منصوبے کی تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔ عدالت عظمیٰ نے یہ ریمارکس اور احکامات سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں مختلف مقدمات کی سماعت کے دوران دیئے۔ تفصیلات کے مطابق کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کراچی تجازوارت کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس نے سندھ حکومت کے وکیل کی سخت سرزنش کی اور ریمارکس دیئے کہ سوائے سندھ کے پورے ملک میں ترقی ہورہی ہے، تھرپارکر میں آج بھی لوگ پانی کی بوند کیلئے ترس رہے ہیں۔ ایک آر او پلانٹ نہیں لگا ، پندرہ سو ملین روپے خرچ ہوگئے۔ حکومت کے پاس کیا منصوبہ ہے؟ صورتحال بدترین ہورہی ہے، ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے یہاں ایک اے ایس آئی بھی اتنا طاقتور ہوجاتا ہے کہ پورا سسٹم چلا سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا مسٹر ایڈووکیٹ جنرل اپنی حکومت سے پوچھ کر بتائیں کیا چاہتے ہیں آپ؟ چیف جسٹس گلزار احمد نے نے ریمارکس دیئے کسی نے کل کلپ بھیجا ہے بوڑھی عورت کو کس طرح سے اسپتال لے جایا جارہا تھا جائیں اندرون سندھ میں خود دیکھیں کیا ہوتا ہے؟ سب نظر آجائیگا کہ ہو کیا رہا ہے یہاں۔ پتا نہیں کہاں سے لوگ چلتے ہو آتے ہیں جھنڈے لہراتے ہوئے شہر میں داخل ہوتے اور کسی کو نظر نہیں آتے۔ کم از کم 15 ، 20 تھانوں کی حدود سے گزر کر آئے ہوں گے کسی کو نظر نہیں آیا۔ ابھی وہاں رکے ہیں کل یہاں بھی آجائیں گے۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے موقف اپنایا کہ کل بجٹ کی تقریر ہے 2 دن کی مہلت دیدیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے بجٹ تو پچھلے سال بھی آیا تھا لوگوں کو کیا ملا؟ صرف اعداد و شمار کا گورکھ دھندا ہے آپ ادھر اُدھر گھما دیتے ہیں۔ اتنے سالوں سے آپ کی حکومت ہے یہاں کیا ملا شہریوں کو؟۔علاوہ ازیں سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس گلزا احمد کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الحسن اور جسٹس قاضی محمد امین پر مشتمل تین رکنی بینچ کے روبرو گجر اور اورنگی نالہ تجاوزات کیس سے متعلق لیز مکانات کو گرانے سے متعلق وضاحت کیلئے کے ایم سی کی درخواست کی سماعت ہوئی۔سپریم کورٹ نے برساتی نالوں پر تجاوزات کیخلاف آپریشن رکوانے اور متاثرین کو معاوضہ دینے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے عدالتوں سے جاری حکم امتناع بھی کالعدم قرار دے دئیے اور حکم دیاہےکہ برساتی نالے اصل حالت میں بحال کیے جائیں۔چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس میں کہا کہ جعلی لیز کی زمہ دار سندھ حکومت ہے ،زمین سرکاری ہے تو متاثرین کو ریلیف کیسے دیا جا سکتا ہے؟ یہ سب چائنہ کٹنگ کا معاملہ ہے، سب جعلی دستاویزات ہیں ، لیز چیک ہوئیں تو سب فراڈ نکلے گا۔ کے ایم سی کے وکیل نے موقف دیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت گجر نالے کو چوڑا کیا جارہا ہے لیکن اس عمل سے لیز مکانات بھی زد میں آرہے ہیں اور مالکان نےاینٹی انکروچمنٹ ٹربیونل سےحکم امتناع لے لیا ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے موقف اپنایا کہ نالوں کی ری الائنمنٹ کردی گئی ہے۔ متاثرین کو 2 سال تک 20 ہزار روپے کرائے دیے جائینگے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے نالوں پر لیز آخر دی کس نے؟ ایڈووکیٹ جنرل نے موقف دیا کہ مختلف اوقات میں مختلف لوگوں نے لیز دی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے یہ سب حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے۔ اسکی ذمہ دار سندھ حکومت ہے۔ لیز دینے میں حکومتی ادارے ذمہ دار ہیں۔ متاثرین کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ سپریم کورٹ فیصلے کی غلط تشریح کی جا رہی ہے۔ سپریم کورٹ نے نالوں کے اطراف سٹرک بنانے کا کوئی حکم نہیں دیا۔ گھروں کی لیز کے ڈی اے، کچی آبادی، کے ایم سی نے دیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے آپ لیز متعلقہ محکمے میں لے جائیں اصلی ثابت کریں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے تجاوزات تو ہر حال میں ختم کرنا ہونگی۔ گجر نالہ پر کیسے مکان بنادیئے گئے؟ جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیئے معاوضہ دینے کا معاملہ الگ ہے مگر تجاوزارت کیخلاف کارروائی کیسے روک دیں؟ اس طرح غیرقانونی لیز کی بنیاد پر کارروائی نہیں رک سکتی۔ سپریم کورٹ نے نالوں کی چوڑائی پر کام شروع کرنے کا حکم دیدیا۔ عدالت نے متاثرین کی معاوضے اور آپریشن روکنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے نالوں پر حکم امتناع بھی کالعدم قرار دے دیا۔ علاوہ ازیں سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الحسن اور جسٹس قاضی محمد امین احمد پر مشتمل تین رکنی بینچ کے روبرو کڈنی ہل پارک تجاوزات کیس، کشمیر روڈ پر کے ڈی اے آفیسر و دیگر تعمیرات اور الہ دین واٹر پارک سے متصل شاپنگ سینٹر اور کلب سے متعلق سماعت ہوئی۔ عدالت نے کڈنی ہل پارک ، کشمیر روڈ پر کے ڈی اے افسر و دیگر تعمیرات اور آلہ دین واٹر پارک سے متصل شاپنگ سینٹر اور کلب کے خاتمے اور تمام تجاوزارت ختم کرنے حکم دیدیا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کمشنر کراچی کہاں ہیں؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے آپ کو تمام قبضے ختم کرنے کا حکم دیا تھا۔ چیف جسٹس نے تنبیہ کی کہ آپ سے نہیں ہوتا تو آپ کو جیل بھیج دینگے۔ آپ پر ابھی چارج فریم کر دیتے ہیں۔کڈنی ہل پورے کا پورا خالی چاہیے۔ جائیں اور کڈنی ہل پارک سے تمام تجاوزات کا خاتمہ کریں۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے ایک قبضہ ختم ہوتا ہے دوسرے دن دوبارہ ہو جاتا ہے۔ آئے دن قبضے پر قبضہ ہوجاتا ہے۔ کمشنر کراچی نے بتایا کہ ایک مسجد اور مزار رہ گیا ہے باقی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کس نے لیز کیا مزار اور مسجد کو؟ سیکرٹری الفتح مسجد نے بتایا کہ الفتح مسجد ایک قدیم مسجد ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے اگر مسجد نبوی میں غیر قانونی زمین پر توسیع نہیں ہو سکتی تو کسی پر نہیں ہو سکتی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کڈنی ہل پارک پر کبھی مسجد اور مزار نہیں رہا۔ عدالت نے کمشنر کراچی کو تمام تجاوزات کا خاتمہ کرنے کا حکم دے دیا۔ دوسری جانب تین رکنی بینچ کے روبرو کشمیر روڑ پر کے ڈی اے افسر و دیگر تعمیرات سے متعلق سماعت ہوئی۔ عدالت نے کشمیر روڑ سے تمام تجاوزات کا خاتمہ کرنے کا فوری حکم دیدیا۔ چیف جسٹس نے کے ڈی اے کو حکم دیا کہ جتنی مشینیں چاہیں لے کر جائیں اور سب گرائیں۔ عدالت نے کے ڈی اے کلب، اسکواش کورٹ، سوئمنگ پول و دیگر تعمیرات بھی گرانے کا حکم دیدیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کسی زمانے میں کشمیر روڑ پر بچے کھیلتے تھے۔ میں خود کشمیر روڑ پر کھیلتا رہا۔ آج کشمیر روڑ پر سب قبضے ہو گئے۔عدالت نے کشمیر روڑ دوبارہ بچوں کے لیے کھولنے کا حکم دیدیا۔ عدالت نے رائیل پارک پر بھی پارک بنانے کا حکم دیدیا۔ فیصل صدیقی ایڈوکیٹ نے کہا پورا کے ڈی اے افسر کلب گرا دیا گیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے میری اطلاع کے مطابق کلب اب بھی چل رہا ہے۔ الہ دین پر بھی کوئی کلب بنا دیا گیا ہے۔ یہ کے ڈی اے کلب کیا ہوتے ہیں؟ ہم نے بچپن میں ان سب میدانوں میں کھیلا ہے۔ کیا کشمیر روڑ پر سب ختم کردیا؟ کشمیر روڑ پر ملبہ کیوں چھوڑ دیا؟ کیا سپریم کورٹ خود جا کر تجاوزات کا خاتمہ کرے۔ کیا صرف اشرافیہ کیلئے سب سہولتیں ہیں۔ عدالت نے کشمیر روڑ پر تمام کھیل کے میدان بحال کرنے کا حکم دیدیا۔ اگر کوئی رکاوٹ ڈالے تو عدالتی حکم کیخلاف ورزی تصور ہوگا۔ عدالت نے سماعت بدھ تک کیلئے ملتوی کردی۔ اسی دوران سپریم کورٹ کے روبرو الہ دین واٹر پارک سے متصل شاپنگ سینٹر اور کلب بنانے کا معاملہ بھی آیا۔ عدالت نے الہ دین پویلین کلب، شاپنگ سینٹر کے خاتمے کا حکم دیدیا۔ عدالت نے الہ دین پارک کو اصل حالت میں بحال کرنے کا حکم دیدیا۔ سپریم کورٹ نے آلہ دین واٹر پارک سے متصل تمام کمرشل کاروبار کے خاتمے کا حکم دیتے ہوئے کمشنر کراچی سے دو دن میں عمل درآمد رپورٹ طلب کرلی۔علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے کنٹونمنٹ علاقوں اور ڈی ایچ اے سمیت شہر کے دیگر علاقوں میں پانی کی فراہمی سے متعلق کے فور منصوبے کی تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کنٹونمنٹ علاقوں اور ڈی ایچ اے سمیت شہر کے دیگر علاقوں میں پانی کی فراہمی سے متعلق کراچی رجسٹری میں سماعت کی۔ چیف جسٹس نے ایم ڈی واٹر بورڈ کی سرزنش کرتے ہوئے ریمارکس دیئے جب ٹینکر میں پانی آتا ہے تو گھروں کو کیوں نہیں ملتا؟ ڈی ایچ اے کی سڑکیں بھی تباہ حال ہیں۔ واٹر بورڈ صارفین کو پانی کیوں نہیں دیتا؟ ہاکس بے کی طرف نئی سوسائٹیز بن رہی ہیں سارا پانی وہاں ڈائیورٹ ہورہا ہے۔ کراچی والے کیا کرینگے؟ کراچی کو پانی کیسے ملے گا۔ سب پانی چوری میں ملوث ہے۔ چیف جسٹس نے ایم ڈی واٹر بورڈ کو جھاڑ پلاتے ہوئے کہا کہ آپ شہریوں کو پانی نہیں دیتے تو کیوں بیٹھے ہوئے ہیں؟ اس ادارے کے رہنے کا کیا مقصد؟ ختم کریں ایسا ادارہ۔ ایم ڈی واٹر بورڈ نے بتایا کہ کے فور منصوبہ سے کراچی کو وافر مقدار میں پانی ملے گا۔ عدالت مے استفسار کیا کہ منصوبہ طویل عرصہ سے التوا کا شکار ہے کب مکمل ہوگا؟ایم ڈی واٹر بورڈ نے بتایا کہ اب کے فور وفاق کی سپرد ہے اس لیئے وفاقی بہتر بتاسکتی ہے۔ عدالت نے کے فور منصوبے کی تفصیلی رپورٹ بھی طلب کرلی۔
اہم خبریں سے مزید