’جناح پور‘ کے مبینہ نقشوں کی برآمدگی سازش یا مفروضہ: وہ ’بھوت‘ جس نے آج تک پاکستان کا پیچھا نہیں چھوڑا جعفر رضوی ،تصویر کا ذریعہPICTORAL BIOGRAPHY OF ALTAF HUSSAIN ’بھوت نے کبھی پیچھا نہیں چھوڑا۔۔۔ نہ بوتل میں بند کرنے والوں کا، نہ بوتل سے نکالنے والوں کا۔۔۔ کبھی اکھنڈ بھارت کبھی جناح پور، ایک کے بعد ایک کر کے یہ سب کچھ کسی جادوگر کی ٹوپی سے برآمد ہونے والے خرگوش کی طرح کا تماشہ تھا اور بس۔۔۔‘ بزرگ سیاستدان کے طنز کی کاٹ بہت واضح تھی۔ مگر بات اتنی وزنی تھی کہ الطاف حسین پر اب ’ملک دشمنی‘ اور ’وطن سے غداری‘ کے الزامات لگانے والے مخالفین بھی ’جناح پور‘ کے اس قصے کو ’مفروضہ‘ ہی قرار دیتے ہیں۔ ٹھہر جائیے۔ ممکن ہے کہ یوں درمیان سے کی جانے والی بات شاید الجھ جائے، لہٰذا ’جناح پور‘ کے اس ’بھوت، مفروضے یا جادو‘ کا پورا قصہ ہی دہرانا پڑے گا۔ قیامِ پاکستان کے وقت انڈیا سے نقل مکانی کر کے آنے اور سندھ کی شہری علاقے خصوصاً کراچی اور حیدر آباد میں بس جانے والے پناہ گزینوں کو جب قریباً 40 سال کے انتظار کے بعد بھی کوٹہ سسٹم، لسانی بِل جیسے مسائل اور تعلیمی اداروں میں داخلوں یا سرکاری ملازمتوں کے حصول میں مشکلات جیسے مصائب کا سامنا رہا تو اُن میں زبردست احساسِ محرومی نے جنم لیا۔ 1980 کی دہائی کی ابتدا تک ’مہاجروں‘ کی یہی محرومی پہلے سیاسی بے چینی میں بدلی، پھر شکایتوں میں ڈھلی اور بالآخر الطاف حسین کی متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی بے مثال مقبولیت کی شکل میں اُبھری۔ مگر الطاف حسین کی ایم کیو ایم اپنے قیام کی فوراً بعد ہی دھونس، دھمکی، طاقت، تشدد، اسلحے اور قتل و غارت کی سیاست کے فروغ جیسے سنگین الزامات سے دھندلا گئی۔ دبے دبے لہجے میں پہلے ذرائع ابلاغ اور پھر ملک بھر میں سنائی دی جانے والی شکایات کے تناظر میں سندھ کے دیہی اور شہری دونوں حصوں میں جرائم کے خلاف وہ فوجی کارروائی شروع ہوئی جسے پہلے ’سندھ آپریشن‘ کا نام دیا گیا اور پھر ’کراچی آپریشن‘ کے نام سے عالمی ذرائع ابلاغ اور بین الاقوامی سطح پر پہچانا گیا۔ اندرونِ سندھ تو ’ڈاکوؤں اور پتھاریداروں‘ کے خلاف یہ کارروائی سانحہ ٹنڈو بہاول میں انسانیت و انصاف کے قتل سے خون آلود ہوگئی مگر شہری سندھ میں اس کارروائی میں دونوں جانب سے گھمسان کا رن پڑتا دکھائی دیا۔ کراچی کے ہزاروں شہری جن کی درست تعداد تو شاید کوئی بھی نہ بتا سکے سیاست و ریاست کی اس محاذ آرائی میں ہلاک ہوئے۔ ،تصویر کا ذریعہGetty Images دونوں جانب سے طاقت کا جواب طاقت سے دینے کے اس بھیانک کھیل میں جو ہزاروں لوگ مارے گئے ان میں بلاشبہ ایم کیو ایم کے ہزاروں کارکن، قانون نافذ کرنے والے ریاستی اداروں (پولیس رینجرز اور دیگر) کے سینکڑوں اہلکار و افسران اور عام شہری سب ہی شامل تھے۔ ایک جانب ایم کیو ایم کے کارکنوں کی ’ماورائے عدالت‘ یا ’جعلی‘ کہے اور سمجھے جانے والے ’پولیس مقابلوں‘ میں ہلاکتوں کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوا تو دوسری جانب سرکاری اداروں (زیادہ تر پولیس افسران و اہلکاروں) کو ہدف بنا قتل کیے جانے کی وارداتیں تواتر سے رونما ہوئیں۔ 19 جون 1992 کو کراچی میں شروع ہونے والے سیاسی و انتظامی آنکھ مچولی کے اس کھیل کا سب سے زیادہ سنسنی خیز موڑ پہلے ماہ کے اختتام سے قبل ہی آ گیا۔ 17 جولائی 1992 کراچی میں فوج کی ففتھ ’ریزرو‘ کور کے جنرل آفیسر کمانڈنگ (جی او سی) کراچی جنرل سلیم ملک نے اُس روز صحافیوں کو فوجی آپریشن سے متعلق ’پریس بریفنگ‘ میں مدعو کیا۔ اگرچہ اس بریفنگ میں (اُس وقت کے) فوج کے سائیکولوجیکل وار فیئر ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ بریگیڈیئر آصف ہارون اور شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے اعلیٰ افسران و اہلکار بھی موجود تھے مگر سب سے زیادہ حیران کُن پنجاب سے خصوصی طور 'بلوائے گئے' صحافیوں کی موجودگی تھی۔ اس بریفنگ کے بعد ملک بھر کے اخبارات میں اس سنسنی خیز الزام پر مبنی شہ سرخیاں شائع ہوئیں کہ الطاف حسین کی ایم کیو ایم ملک توڑ کر ’جناح پور‘ بنانا چاہتی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے ذریعے بتایا گیا کہ الطاف حسین اور اُن کی تنظیم کراچی کو باقی ملک سے الگ کر کے سنگاپور کی طرز پر علیحدہ ملک بنانے کے منصوبے پر کارفرما ہے۔ ان خبروں میں ایم کیو ایم کے دفاتر پر فوجی و غیر فوجی اداروں کے چھاپوں کے دوران برآمد ہونے والے ’جناح پور کے نقشے‘ کا بھی حوالہ دیا گیا۔ ،تصویر کا ذریعہAFP فوراً ہی ذرائع ابلاغ کی خبروں، اداریوں اور مضامین میں یہ بحث بڑے زور و شور سے شروع ہوئی کہ کیا واقعی فوج نے ایم کیو ایم کا ’ملک توڑنے کا منصوبہ‘ ناکام بنا دیا ہے یا پھر ’جناح پور کے برآمد‘ ہونے والے یہ نقشے محض افسانہ اور الزام ہیں؟ کراچی آپریشن کے باقاعدہ آغاز سے قبل ہی ایم کیو ایم کے بانی و قائد الطاف حسین لندن جا پہنچے تھے۔ آپریشن کے دوران تنظیم کے خلاف کارروائی کے خدشات کے پیشِ نظر ایم کیو ایم کی باقی اعلیٰ ترین قیادت بھی روپوش ہو چکی تھی یا انڈر گراؤنڈ جا چکی تھی۔ تنظیمی ڈھانچے کی اس تباہی کی وجہ سے ایم کیو ایم پہلے ہی بدترین مصائب و مشکلات کا شکار تھی کہ اس نئی بحث کے نتیجے میں شدید دباؤ کا شکار نظر آنے لگی۔ ایم کیو ایم کی وہ ’متبادل قیادت‘ جو بزرگ اور خواتین رہنماؤں پر مشتمل تھی اور آپریشن کے باوجود بھی کراچی کے علاقے عزیز آباد میں واقع نائن زیرو کہلائی جانے والی الطاف حسین کی رہائش گاہ پر موجود رہتی تھی تاکہ عوام اور صحافیوں کو آپریشن اور اس کے خلاف ایم کیو ایم کی سیاسی حکمت عملی سے آگاہ رکھ سکے۔ مگر ’جناح پور کے نقشوں کے برآمد‘ ہونے کے بعد اُن کے لیے بھی تنظیم کا دفاع مشکل ترین محاذ بن کر رہ گیا۔ ملک بھر میں ایم کیو ایم کے خلاف پہلے ہی سے تیار شدہ ماحول میں ان ’نقشوں کی برآمدگی‘ کی خبروں نے وہ مرچ مصالحہ لگایا کہ ایم کیو ایم کی اس متبادل قیادت کے لیے بھی پارٹی کا موقف پیش کرنا بھی ایک کڑا امتحان بن گیا۔ سنہ 1996 کے اواخر تک اس بحث کے بیچ کہ کراچی آپریشن اپنے مقاصد حاصل کر سکا یا نہیں؟ سندھ کے شہری علاقوں میں جاری یہ فوجی کارروائی تو آہستہ آہستہ ختم ہوگئی مگر ’جناح پور کے اس بھوت‘ سے نہ تو فوج کی جان چھوٹی اور نہ ہی ایم کیو ایم کی۔ الزام درست تھا یا محض مبالغہ آرائی یا پھر کچھ خفیہ ہاتھوں کی کارستانی، یہ تو کئی برس تک واضح نہیں ہو سکا مگر جناح پور کے اس آسیب نے دونوں فریقوں کا تعاقب آئندہ برسوں تک کیا۔ الطاف حسین اور اُن کی ایم کیو ایم تب سے اب تک ہمیشہ اس الزام کی تردید کرتی رہی ہے اور اسے ایم کیو ایم کی مقبولیت سے خائف ریاستی اداروں کی ’سوچی سمجھی سازش‘ قرار دیتی رہی حتی کہ سنہ 2016 میں کئی دھڑوں میں بٹ جانے کے باوجود آج بھی ایم کیو ایم کے تمام دھڑے اسی موقف پر قائم ہیں۔ دوسری جانب خود یہ الزام لگانے والے فوجی افسران بھی کئی برس تک تردید کرتے رہے کہ ’فوج نے ایسا کوئی الزام کبھی لگایا ہی نہیں۔‘ یہ بھی پڑھیے اب سچ کیا تھا اور کیا ہے؟ اس کا فیصلہ تو تاریخ کرے گی مگر ریاستی اہلکاروں کی جانب سے پیش کردہ وضاحتوں اور تردیدی بیانات میں اتنی کجی اور خامیاں رہیں کہ معاملہ سلجھنے کی بجائے مزید الجھا ہوا نظر آنے لگا۔ تردید کرنے والے افسران (جن میں خود الزام لگانے والے فوجی افسران بھی شامل تھے) نہ صرف اپنے ہی ادارے کی قیادت پر بھی الزام لگاتے رہے بلکہ ان کی جانب سے جناح پور کے الزام کے سلسلے میں جو وضاحتیں سامنے آئیں اُن سے کم از کم یہ تو ثابت ہوگیا کہ خود فوج میں اس معاملے پر اختلافات بھی تھے، تیاری (ہوم ورک) کی کمی بھی تھی اور جناح پور کے ان مبینہ نقشوں کی برآمدگی کے بارے میں بھرپور تضادات بھی۔ ایسے میں سابق فوجی افسران کی بَل کھائی ہوئی پیچیدہ ڈور کے الجھے ہوئے گچھے جیسی دلیلوں یا وضاحتوں سے معاملہ واضح تو خیر کیا ہوتا الٹا فوج کا بٹا ہوا موقف مضحکہ خیز نظر آنے لگا۔ جناح پور کا الزام ریاست اور سیاست کے درمیان جاری محاذ آرائی کا ہتھیار تھا یا محض سیاسی شعبدہ بازی؟ ،تصویر کا ذریعہGetty Images اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے بعد میں رونما ہونے والی تمام پیشرفت کا عمیق جائزہ بھی ضروری ہے اور دونوں فریقین کا موقف جاننا بھی۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ کے مواد اور اس دور کے صحافیوں کی فراہم کردہ معلومات پر بھروسہ کیا جائے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ 17 جولائی 1992 کی پرہجوم پریس کانفرنس میں موجود فوجی افسران کی جانب سے دعویٰ تو کیا گیا کہ فوج کے مختلف تفتیشی اور خفیہ اداروں کی مدد سے جو چھاپے الطاف حسین کی ایم کیو ایم اور اے پی ایم ایس او کے دفاتر پر مارے گئے ان کے دوران کچھ ’ایسے نقشے برآمد ہوئے ہیں جن سے انکشاف ہوا ہے کہ الطاف حسین اور اُن کی ایم کیو ایم پاکستان توڑنا اور ایک نیا ملک جناح پور بنانا چاہتے ہیں۔‘ مگر 23 اگست 2009 کو اچانک ایک سنسنی خیز پیشرفت کے تحت فوج کے ایک سابق افسر اور کراچی آپریشن کے وقت پاکستان میں خفیہ ادارے انٹیلیجینس بیورو (آئی بی) کے سابق سربراہ بریگیڈیئر امتیاز نے نجی ٹی وی چینل اے آر وائی پر میزبان ڈاکٹر دانش کے شو میں شرکت کے دوران ’جناح پور اور اس کے نقشوں کی برآمدگی‘ دونوں ہی کو ’ڈرامہ‘ قرار دے دیا۔ اس نشریے میں آئی بی کے سابق افسر بریگیڈئیر امتیاز اور ایم کیو ایم کے (تب کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر و رکن قومی اسمبلی) حیدر عباس رضوی دونوں ہی موجود تھے۔ بریگیڈیئر امتیاز نے میزبان کے سوال کے جواب میں کہا کہ ’یہ بالکل ڈرامہ تھا۔ میں نے خود سات روز تک مسلسل تفتیش کی اور اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ سراسر ڈرامہ ہے اور ایم کیو ایم کے کسی دفتر سے یہ نقشے برآمد نہیں ہوئے۔‘ ادھر نو فروری 2016 کو یو ٹیوب پر پوسٹ کی جانے والی ’ایس ایس پی المہاجر‘ نامی ادارے سے منسوب ایک نشریے کے ویڈیو کلپ میں فوج کے سابق بریگیڈیئر آصف ہارون نے بھی اپنے طور پر اس معاملے کی وضاحت کی۔ بریگیڈیئر آصف ہارون نے کہا ’مجھے (اُس وقت کے) آرمی چیف جنرل آصف نواز کی جانب سے سندھ بھیجا گیا کیونکہ (فوجی قیادت کا موقف تھا کہ) یہ پتہ نہیں چل پا رہا کہ دراصل سندھ میں ہو کیا رہا ہے۔ سندھ پہنچنے پر میں نے روزانہ (ذرائع ابلاغ کو) آپریشن کے بارے میں تفصیلات فراہم کرنے کا انتظام و اہتمام کیا اور آپریشن سے متعلق تفصیلات اور اس پر فوج کا سرکاری موقف ذرائع ابلاغ تک پہنچانے کی ذمہ داریاں نبھائیں۔‘ ’مگر 17 جولائی کی جو پریس بریفنگ ہے وہ میری بریفنگ نہیں تھی۔ یہ پریس بریفنگ میجر جنرل سلیم ملک کی تھی جو اس وقت فوج کی ففتھ کور ریزرو کے جنرل آفیسر کمانڈنگ (جی او سی) تھے۔‘ ’اور یہ مجھ پر الزام لگایا جاتا ہے کہ میں نے پنجاب کے صحافیوں کو خاص طور پر چارٹر کیا (اس بریفنگ کی کوریج کے لیے خصوصی طور پر کراچی پہنچایا یا بلوایا)۔ یہ صحافی میں نے نہیں بلوائے تھے یہ صحافی آئی ایس پی آر (فوج کے شعبہ تعلقات عامہ) نے بلوائے تھے۔‘ ’جنرل نصیر اختر نے کہا کہ وہ کسی کے انتقال پر تعزیت کے لیے پنجاب جا رہے ہیں تو میں اُن کے بیہاف پر (یعنی جنرل نصیر اختر کی جانب سے) سوال جواب کی ذمہ داری ادا کرنے کی خاطر وہاں تھا۔‘ وہاں صحافیوں کی جانب سے سوال ہوا کہ ہم بڑا سن رہے ہیں جناح پور کے بارے میں تو اس کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ ’تو میں اتنا ہی کہا کہ جتنا آپ نے سُنا ہے میں نے بھی اتنا ہی پڑھا ہے۔ ہاں ۔۔۔ اتنا میں ضرور کہہ سکتا ہوں کے حال ہی میں فوج نے کوٹری (حیدرآباد کے قریب ایک مقام) میں ایم کیو ایم کے دفتر پر چھاپے میں جناح پور کے کچھ نقشے اور دستاویزات پکڑی ہیں۔‘ ،تصویر کا ذریعہGetty Images ’جب صحافیوں نے مزید پوچھا تو میں نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ بعض افراد اس جناح پور کے آئیڈیا کو آگے بڑھا رہے ہوں، اتنی بات تھی، اب یہ نہیں ہے کہ جناح پور کیا تھا، وہ اس تناظر میں تھا یا نہیں تھا۔‘ بریگیڈیئر آصف ہارون نے وضاحت کرنا چاہی۔ لیکن بریگیڈئیر آصف ہارون نے یہ بھی تسلیم کیا کہ بعد ازاں ’جناح پور‘ کا یہ الزام ’سیاسی طور پر اُس وقت کی حکومت نے ایم کیو ایم کے خلاف استعمال کیا گیا۔‘ بریگیڈیئر امتیاز اور بریگیڈیئر آصف ہارون کی اس پریس کانفرنس کے کئی سال بعد ہونے والی گفتگو سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت کے سندھ کے کور کمانڈر جنرل نصیر اختر دراصل چاہتے تھے کہ ’جناح پور‘ کا الزام متحدہ قومی موومنٹ پر لگایا جائے اور اچھالا بھی جائے۔ لیکن 23 اگست 2009 کی نجی چینل اے آر وائی کی نشریات میں خود جنرل نصیر اختر نے بھی بذریعہ فون شرکت کی اور کہا کہ ’کراچی آپریشن متحدہ کے خلاف نہیں تھا متحدہ والے ہمارے بھائی ہیں۔‘ جنرل نصیر اختر نے مزید کہا کہ ’جناح پور کا نقشہ جب پیش ہوا تو دو دن کے بعد ہی اس کو ود ڈرا کر لیا گیا (واپس لے لیا) مجھے اس (جناح پور کے نقشے) کا علم بالکل نہیں تھا۔ مجھے اس کا بعد میں بھی بڑا افسوس رہا کہ جناح پور کا نقشہ سامنے نہیں آنا چاہیے تھا۔‘ سابق کور کمانڈر جنرل نصیر اختر نے کئی بار یہی بات دہرائی۔ اس کی باوجود بھی ’جناح پور کے بھوت‘ نے پیچھا کبھی نہیں چھوڑا، نہ بوتل میں بند کرنے والوں کا، نہ بوتل سے نکالنے والوں کا۔ بی بی سی نے اس معاملے پر مؤقف جاننے کے لیے بریگیڈیئر آصف ہارون سمیت تمام افراد سے رابطے کی کوشش کی مگر کوئی بھی دستیاب نہیں ہو سکا۔ جس وقت ’جناح پور‘ کا یہ آسیب سیاسی افق پر نمودار ہوا، بریگیڈیئر صولت رضا اُس وقت کراچی میں آئی ایس پی آر کے نگران (ڈائریکٹر) تھے۔ اب بی بی سی سی گفتگو میں بریگیڈیئر صولت رضا کہتے ہیں کہ ’فوجی بریفنگ میں نقشوں کا ذکر ضرور ہوا، مگر ایم کیو ایم کی اعلیٰ قیادت کے ذہن میں جناح پور کبھی نہیں تھا۔‘