Live Breaking News & Updates on Gautam basu

Stay informed with the latest breaking news from Gautam basu on our comprehensive webpage. Get up-to-the-minute updates on local events, politics, business, entertainment, and more. Our dedicated team of journalists delivers timely and reliable news, ensuring you're always in the know. Discover firsthand accounts, expert analysis, and exclusive interviews, all in one convenient destination. Don't miss a beat — visit our webpage for real-time breaking news in Gautam basu and stay connected to the pulse of your community

Developer cannot claim pending dues, delay interest from buyer without valid documents: Karnataka RERA

KRERA said most of the documents, including the building plan and BDA modified plan of Provident Park Square 5 expired in 2018 as the developer failed to obtain a commencement certificate before that.

Bengaluru , Karnataka , India , Mary-joghul , Gautam-basu , Bengaluru-development-authority , Karnataka-real-estate-regulatory-authority , Provident-park-square , Puravankara-limited , Provident-park-square-phase , Real-estate , Engaluru

Samarjit Roy sings duet with Indrani Sen

Renowned singer Samarjit Roy and eminent singer Indrani Sen lent their voices for an original song about mother and son.

Kolkata , West-bengal , India , Indrani-sen , Gautam-basu , Shakir-dewan , Samarjit-roy , Youtube , Facebook , Randeep-manu , Ndrani-sen , Uet

Elderly British flier recounts ordeal with Air India

Octogenarian British citizen who visits his family in Calcutta every winter shares his own experience earlier this month

Doha , Ad-daw-ah , Qatar , Dubai , Dubayy , United-arab-emirates , India , United-kingdom , Heathrow , Hillingdon , Jadavpur , West-bengal

তৃণমূলে যোগ দিলেন সুনীল সিং ঘনিষ্ঠ বিজেপির ২ প্রাক্তন কাউন্সিলর

তৃণমূলে যোগ দিলেন সুনীল সিং ঘনিষ্ঠ বিজেপির ২ প্রাক্তন কাউন্সিলর
india.com - get the latest breaking news, showbiz & celebrity photos, sport news & rumours, viral videos and top stories from india.com Daily Mail and Mail on Sunday newspapers.

Ashok-singh , Sunil-singh , Bharat-kumar , I-sunil-singh , Gautam-basu , Gautam-bose , Ii-council , Ii-council-ashok-singh , Council-ashok-singh , Wednesday-they , Donation-camp , அசோக்-சிங்

'پیس ہوٹل' جہاں کیلے کے درخت کے پتوں میں کھانا پیش کیا جاتا ہے


’پیس ہوٹل‘ جہاں کیلے کے درخت کے پتوں میں کھانا پیش کیا جاتا ہے
جینیفر کشن
،تصویر کا ذریعہJennifer Kishan
کولکتہ کی سینٹ ہوگ مارکیٹ کے پیچھے ایک چھوٹی سی گلی میں ہوٹل سدھیشواری آشرم کا تنگ سا دروازہ شاید آپ کو نظر ہی نہ آئے مگر اس کی سرسوں کے تیل میں تلی ہوئی مچھلی کی خوشبو گاہکوں کو راستہ بتاتی ہے۔
یہ رش کا وقت ہے اور کولکتہ کے آخری چند پیس ہوٹلوں میں سے ایک یہ ریستوران کھچا کھچ بھرا ہوا ہے۔ نارنجی رنگ کے کپڑے پہنے بیرے کچن کے دروازے سے اندر باہر ہو رہے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں سبزی، مچھلی، اور گوشت کی بنی ہوئی ڈشز ہیں اور ساتھ میں کیلے کے درخت کے پتوں میں لپٹے چاول، سیڑھیوں اور ڈائنگ روم کے درمیان بیٹھا ایک منشی ہر ڈش کا حساب رکھے ہوئے ہے۔
ریتا سن کی چار نسلیں اس ہوٹل کی مالک رہی ہیں۔ وہ ریستوران کے درمیان میں ایک جگہ کھڑی ہو کر ہوٹل کو سنبھال رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ہم یہ جگہ 93 سال سے چلا رہے ہیں اور ہمارے گاہکوں کی قطاریں کبھی کم نہیں ہوئی ہیں۔ یہاں تک کہ ’کولکتہ کے سابق میئر بھی دوپہر کا کھانا ہمارے ہوٹل سے ہی کھاتے تھے۔‘
یہ بھی پڑھیے
پیس ہوٹلوں کا نام ہندی لفظ پیسہ سے نکلا ہے۔ بیسویں صدر کے آغاز پر جب اس شہر میں کام کی غرض سے دور دور سے آنے والوں کی تعداد بہت زیادہ تھی تو اس وقت یہ ہوٹل انتہائی سستے داموں میں گھر جیسا کھانا فراہم کرتے تھے۔
گاہکوں میں زیادہ تر مڈل کلاس مرد تھے جنھیں خود کھانا پکانا نہیں آتا تھا۔ پیس ہوٹل ان نوجوانوں کو گھر کی یاد اور سستا کھانا دونوں ہی فراہم کرتے تھے۔
،تصویر کا ذریعہJennifer Kishan
پیس ہوٹل اپنی سروس کے لحاظ سے نایاب ہیں۔ زمین پر بچھی ٹاٹ پر کیلے کے درخت کے پتوں میں کھانا پیش کیا جاتا ہے۔ پکانے کا انداز انتہائی روایتی ہے۔ کھانے میں آلو پوستو، کمرو پھول بھاجی، اور ناریل کے دودھ سے بنا جھینگے کا سالن پیش کیا جاتا تھا۔
قیمت اور مینیو ہر روز تبدیل ہوتا تھا اور اس کا فیصلہ اس بنیاد پر ہوتا تھا کہ صبح مارکیٹ میں کیا مل رہا تھا۔ ہوٹل کے اخراجات کم رکھنے اور قیمتوں کو کم رکھنے کے لیے ہر چیز یہاں تک کہ لیموں کا ایک ٹکڑا بھی خریدنا پڑتا تھا اور ہر چیز کی علیحدہ قیمت لگائی جاتی تھی۔
اگرچہ اب زمین پر ٹاٹ کی جگہ میزیں کرسیاں آ گئی ہیں، ان پیس ہوٹلوں میں سروس نہیں بدلی۔ گاہک آج بھی کیلے کے پتوں میں کھانا کھاتے ہیں اور ایک ’تھری کورس‘ (تین حصوں میں بٹا) کھانا آج بھی دو سو انڈین روپے کا ہے۔
آج بھی مقامی ورکرز سے لے کر بین الاقوامی سیاح ان ہی پرانے اصولوں کے تحت کولکتہ کی شاید اصلی بنگالی سوغات کے مزے لے سکتے ہیں۔
پکوانوں کے تاریخ دان تانوشری بھومک کہتے ہیں کہ ’اب ان ہوٹلوں کے حوالے سے ایک رومانوی احساس جڑا ہوا ہے مگر تقریباً ایک صدی تک انھوں نے کم آمدنی والے طبقے کو متوازن غذا فراہم کی تھی۔‘
ان کا کہنا ہے کہ پیس ہوٹلز کو آپ شہرکے پہلے مقامی ہوٹل کہہ سکتے ہیں۔ ‘جیسے جیسے معیشت زرعی سے صنعتی ہوتی گئی تو لوگ دیہی علاقوں سے شہری علاقوں میں ہجرت کرتے گئے اور یہ ہوٹل ان لوگوں کی ضروریات پورا کرتے رہے۔‘
،تصویر کا ذریعہJennifer Kishan
بہت سے پیس ہوٹل نوجوانوں کے ہوسٹلوں کے کچن کے طور پر شروع ہوئے تھے۔ اپنے دادا ناندلال سے ہوٹل محل وراثت میں حاصل کرنے والے سندیپ دتا بتاتے ہیں کہ کیسے شمالی کولکتہ کی رام ناتھ سٹریٹ پر پریزیڈنسی بورڈنگ ہاؤس کے ساتھ ہی ان کا پیس ہوٹل شروع ہوا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’1917 میں میرے دادا نے طلبہ کے لیے بورڈنگ ہاؤس شروع کیا تھا اور جب یہ بورڈنگ ہاؤس بند ہوا تو میں نے اس کے کچن کو ایک ریستوران بنا دیا۔‘
ہوٹل سدھیشواری آشرم بھی ایک ہوسٹل سے ہی شروع ہوا تھا جو کہ قریبی دیہی علاقوں سے آنے والوں کی رہائش کا سامان بنا تھا۔
ریتا سن کہتی ہیں کہ ’1936 میں میرے والد نے ہوسٹل کے باہر والوں کے لیے بھی کھانا پکانا شروع کر دیا تاکہ ان کا کاروبار بڑھے۔
جب ہم مینیو سیٹ کرتے ہیں تو ہم آفس جانے والوں کا بھی خیال رکھتے ہیں جو کہ ہلکا کھانا چاہتے ہیں۔ ہماری سپیشیلٹی کوبھراجی جھول ایک ہلکا سا مچھلی کا سالن ہے جس میں کچھ سبزیاں ہیں۔ گرمیوں میں ہم آم شول مچھ بھی پیش کرتے ہیں جس میں مصالحے کم ہوتے ہیں۔‘
پیس ہوٹل لنچ اور ڈنر میں اپنے پکوانوں کی رینج کی وجہ سے معروف ہیں۔
جنوبی کولکتہ کے راشبہراری جنکشن کے ایک کونے میں 106 سالہ تارن نیکتان ہوٹل ہے جو کہ ہر روز مچھلی کے 15 مختلف پکوان پیش کرتا ہے جس میں بھیٹکی پتوری (کیلے کے چھلکوں میں لپٹے بھاپ میں پکے مچھلی کے ٹکڑے) چھٹول کھوسا (مرچوں والی کلاؤن فش کا سالن) اور معروف بنگالی پکوان الش مچھر جھول (سسروں کی گریوی میں پکی ہلسا مچھلی) شامل ہیں۔ گذشتہ 42 سال سے اس ہوٹل کو چلانے والے ارن دیو کہتے ہیں مچھلی اور انڈؤں کے فریٹرز بہت مقبول ہیں۔
پیس ہوٹل پر کھانا کولکتہ کے دیگر ہوٹلوں کے مقابلے میں مختلف تجربہ ہے۔ ہر ہوٹل میں ایک بلیک بورڈ پر اس دن کے پکانوں کی لسٹ لگی ہوتی ہے۔ میز سب کے اکھٹے ہوتے ہیں اور ہر سیٹ کا بل علیحدہ بنتا ہے۔ کھانے کی ہر چیز کی قیمت علیحدہ ہوتی ہے اور آپ اپنی مرضی سے چیزیں منگواتے رہتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر صرف کیش لیتے ہیں۔
،تصویر کا ذریعہJennifer Kishan
بنگالی کھانے کی روایت بہت پرتعیش ہوتی ہے اور کم از کم سات ڈشز ضرور ہوتی ہیں۔ بھومک کہتے ہیں کہ ’کھانا یہاں مرحلہ وار کھایا جاتا ہے۔
آپ کو پہلے چاول کے ساتھ شُکتو پیش کیا جاتا ہے جو سبزی کا سالن ہے۔ پھر پتوں کا ساگ آتا ہے۔ اس کے بعد دال کا سالن ہے جس میں آپ پکوڑے اور ایک سبزی بھی ڈال سکتے ہیں۔ اس کے بعد مچھلی پھر گوشت اور آخر میں میٹھا لایا جاتا ہے۔
بھومک نے بتایا کہ کھانا ہلکے سے بھاری اور چھوٹی سے بڑی مچھلی اور تلخ سے میٹھے ذائقے کی طرف جاتا ہے۔ پہلی بار یہاں آنے والے کے لیے انتخاب مشکل ہو سکتا ہے لیکن ویٹروں کی تھوڑی مدد سے آپ صیحیح ڈشز کا انتخاب کر سکتے ہیں۔
بھومک کے مطابق ’پیس کا مینو ایسا ہے کہ آپ جیب پر بوجھ ڈالے بغیر اپنے ذوق کے مطابق کھانے میں مزید ڈشز کا اضافہ کر سکتے ہیں۔‘
1940 کی دہائی میں ہندوستان کی آزادی کی تحریک کے دوران، پیس ہوٹلوں میں صرف سستا کھانا ہی نہیں ملتا تھا۔ کولکتہ کے کڈدر پور علاقے میں واقع ینگ بنگال ہوٹل میں باقاعدگی سے آنے والے تاریخ دان گوتم باسو بتاتے ہیں کہ ان ہوٹلوں نے آزادی کے لیے لڑنے والوں کو سستے یا مفت کھانے پیش کرکے اس مقصد کے لیے کس طرح اپنا حصہ بھی ڈالا تھا۔
مصروف کالج سٹریٹ جنکشن سے چند قدم کی دوری پر سودھھن بھارت ہندو ہوٹل، جو اصل میں ہندو ہوٹل کے نام سے جانا جاتا ہے، خفیہ ملاقاتوں کا ایک ٹھکانہ تھا۔
ویوک کمار سنگھ نے، جو اب اپنے دادا کے ریستوران کو چلاتے ہیں، بتایا کہ ’ہوٹل کا سامنے کا حصہ ایک دھوکا تھا۔ اندر کے کمروں سے پیچھے کی طرف نکلنا ہوتا تھا جہاں سے باہر کی جانب خفیہ راستہ تھا۔‘ نیتا جی سبھاش چندر بوس سمیت کئی معروف نام یہاں باقاعدہ آتے تھے۔
،تصویر کا ذریعہJennifer Kishan
یہاں تک کہ کچھ مالکان نے اپنا سیاسی جھکاؤ ظاہر کرنے کے لیے اپنے ہوٹلوں کا نام بھی ویسا ہی رکھا۔ آزادی کے بعد سنگھ کے دادا ایم این پانڈا نے ہوٹل کے نام کے ساتھ ’سوادھین بھارت‘ یا ’آزاد ہندوستان‘ شامل کیا۔ اور تاراپڑا گوہا نے اپنے ہوٹل کو ینگ بنگال ہوٹل کا نام ایک بنیاد پرست بنگالی آزاد تحریک داں کے نام سے منسوب کیا جس نے معاشرتی اصلاحات میں حصہ لیا۔
اگرچہ تاریخ میں ان کا بڑا مقام ہے لیکن بیشتر پیس ہوٹل، خوراک کی بڑھتی قیمتوں اور جدید شہر کے بدلتے ہوئے تقاضوں کو برقرار رکھنے میں ناکام رہے ہیں۔ بہت سے ریستوران بند ہوگئے ہیں اور ان کے ساتھ کولکتہ کی کھانے کی تاریخ کا ایک اہم حصہ بھی ختم ہو گیا ہے۔
گوہا نے ایک بار شہر میں تین پیس ہوٹل چلائے تھے جن میں سے صرف ینگ بنگال ہوٹل ہی بچا ہے۔
گوہا کی پوتی پریتھا رے باردھن نے مجھے ایسے چیلنجز کے بارے میں بتایا جو اس جگہ کو چلانے میں پیش آرہے ہیں۔ کھانے اور دیگر اشیا کے اخراجات بڑھ رہے ہیں۔ انھوں نے بتایا ’ہمیں کھانے کے معیار پر سمجھوتہ نہ کرنے کے لیے قیمتوں میں اصافہ کرنا پڑا ہے ورنہ یہ ہوٹل بھی نہ چل پاتا۔‘
سین، جو اپنی بھابھی دیبجانی کے ساتھ ہوٹل سدھیشوری آشرم چلاتی ہیں ان کے لیے بھی یہ سفر آسان نہیں رہا۔
انھوں نے کہا ’پچھلے کئی سالوں میں دفتری ملازمین کی تعداد کم ہوئی ہے کیونکہ متعدد سرکاری دفاتر شہر کے مضافات میں منتقل کر دیے گئے ہیں۔۔۔ ہمارے پاس گاہکوں کی تعداد دگنی تھی لیکن اب حالات مختلف ہیں۔‘
اگرچہ کچھ لوگوں نے ڈیجیٹل فوڈ ڈیلیوری کی طرف جانے کی کوشش کی ہے، خاص طور پر وبائی بیماری کے مہینوں کے دوران، لیکن اس طرح کی سروسز کے کمیشن کے باعث ہوٹل والوں کو کم ہی فائدہ پہنچتا ہے۔
مشکلات کے باوجود پیس کے بقیہ ہوٹل مالکان پُرعزم ہیں۔ سین کو اب بھی امید ہے کہ ان کی بیٹی اور ان کی بھانجی دونوں ریستوران کو چلتا رکھیں گی۔
اور سوادھین بھارت ہندو ہوٹل کے سنگھ پرعزم تو ہیں لیکن رنج کے ساتھ وہ کہتے ہیں ’اگر ہمیں نقصان میں بھی ہوٹل چلانا پڑے تو ہم اپنے دادا کی میراث کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ کچھ چیزیں انمول ہوتی ہیں۔‘
اسی بارے میں

Kolkata , West-bengal , India , Rome , Lazio , Italy , September-july , Subhas-chandra-bose , Kumar-singh , Gautam-basu , India-hindu-hotel , Thorn-hotel

Spectacular locales where 'Avijatrik' was shot


Spectacular locales where ‘Avijatrik’ was shot
‘Apart from many other exotic vintage locations in Varanasi, we also shot on those very places where Aparajito and Joy Baba Felunath were filmed’
The film
Avijatrik is the concluding part of the epic novel Aparajito by Bibhutibhushan Bandyopadhyay and sequel to the great Apu Trilogy by Satyajit Ray. So I did not take any chance and resort to any compromise in terms of production value and film aesthetics. My senior team members were also up to this monumental task, so that we can pay a perfect homage to those masters. Visually, I wanted this film to be as exotic and as breathtaking as it can be, to portray the real India, to portray the wanderlust of Apu. The visual journey is equally complemented by the diverse authentic soundscape design by Tirthankar Majumdar and a brilliant original score by Bickram Ghosh, so that audio visually the entire experience becomes rich with emotions.

United-kingdom , Sarnath , Uttar-pradesh , India , Chalsa , West-bengal , Bolpur , Gorubathan , Calcutta , Khasi-hills , Meghalaya , Varanasi

Aalto University: Cooperative business veteran Taavi Heikkilä starts his new post at Aalto University

Aalto University: Cooperative business veteran Taavi Heikkilä starts his new post at Aalto University
indiaeducationdiary.in - get the latest breaking news, showbiz & celebrity photos, sport news & rumours, viral videos and top stories from indiaeducationdiary.in Daily Mail and Mail on Sunday newspapers.

Uusimaa , Uusimaa-region , Finland , Helsinki , Eteläuomen-läi , Tapiola , Landskapet-birkaland , Finnish , Taavi-heikkil , Esko-aho , Osmo-soininvaara , Bruce-oreck